نقطہ نظر داعش، القاعدہ اور دوسری دہشت گرد تنظیمیں کس امام کے فتویٰ کی روشنی میں قتل و غارت گری کو ’’جہاد‘‘ کہتی ہیں؟ ایک ایسا مسئلہ جو مسلمانوں کو چونکا کررکھ دے گا

امام ابن تیمیہؒ امت مسلمہ کی گراں قدر شخصیت تھے جنہوں نے علمی اور عملی جہاد بھی کیا ،سات سو سے زائد کتابیں لکھیں۔انہوں نے جہاد کا جو مشہور فتویٰ جاری کیا اسکا القاعدہ اور دیگر جہادی تنظیمیں اپنے مقاصد کے لیے حوالہ بھی دیتی ہیں۔ ایک مسیحی پادری اصف النصرانی نے جب توہین رسالتکی توحکومت نے النصرانی کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اورکہا کہ اس طرح اسکی جان بخشی کردی جائے گی ۔ وہ راضی ہو گیا۔ لیکن امام ابن تیمیہؒ نے فتویٰ دیا کہ مسلمان ہو یا کافر اگر بقائمی ہوش و حواس توہین رسالت کرے گا تو اس کی گردن اڑائی جائے گی۔ اس پر حکومت نے انہیں قید کر دیا۔ اسی قید میں انہوں نے اپنی پہلی معرکہ آرا کتاب ’’الصارم المصلول علی شاتم الرسول‘‘ لکھی تھی ۔ امام ابن تیمیہؒ نے اپنایہ مشہور فتویٰ بھی جاری کیا کہ تاتاری جو اگرچہ اسلام قبول کرچکے ہیں لیکن ان کے خلاف جہاد فرض کفایہ ہی نہیں بلکہ جہاد فرض عین ہے، کیونکہ وہ شریعت کی بجائے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے تحت نہ صرف حکومت کرتے ہیں بلکہ انہیں شریعت سے بہتر بھی سمجھتے ہیں لہذا وہ حالت جاہلیت میں ہی ہیں۔ دراصل تاتاریوں نے اسلام تو قبول کر لیا تھا لیکن اپنے پرانے ’’الیاسق قانون‘‘ کو برقرار رکھا تھا اور شریعت کو نافذ نہیں کیا تھا۔ یہ کسی عالم کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف طاقت کے استعمال کا پہلا فتویٰ تھا۔ اور آج جہادی تنظیمیں اسی کو اپنا جواز بناتی ہیں۔ جب مصر و شام کی اسلامی فوج اور تاتاری فوج میں جنگ ہوئی تو امام ابن تیمیہؒ نے خود بھی اس میں شرکت کی۔
امام ابن تیمیہؒ نے دنیا کو چار خانوں میں تقسیم کرتے ہوئے یہ فکری تصور دیا تھا ۔۔۔ دارالاسلام ۔۔۔جہاں مسلمان بستے ہوں اور شریعت نافذ ہو۔
دارالکفر۔۔۔ جہاں کفار بستے ہوں اور کفر کی حکومت ہو۔